حسن کے جزیروں میں روپ کے کناروں پر ریشمی اندھیرے ہیں، سُرمئی اُجالے ہیں ایک ناز آفریں دل پر قبضہ جمائی بیٹھی ہے جس کی جھیل آنکھوں میں دو نیل بوں سے پیالے ہیں نا پوچھ پری زادوں سے یہ ہجر کیسے جھیلا ہے یہ تن بدن تو چھلنی ہے اور روح پر بھی چھالے ہیں کیسے جان پاؤ گے؟ عشق میں کیا گزری ہے؟ کتنے زخم کھائے ہیں؟ کتنے درد پالے ہیں؟ ♪ سائیاں وے سائیاں وے سائیاں وے خواہشوں کے جنگل میں حسرتوں کے بستر پر جسم تو گلابی ہیں اور دل سے کالے ہیں میں دھوپ کا پجاری ہوں میں لفظ کا بھکاری ہوں لیکن جہاں میں بستا ہوں، وہاں مندروں پہ تالے ہیں کیا عشق وہ نبھائیں گے؟ کیا حسن کو سراہیں گے؟ تاریک جن کے چہرے ہیں مقدّروں پہ جالے ہیں ہیں دشمنوں سے کیا شکوہ؟ کیا گلہ رقیبوں سے؟ یہ سانپ آستینوں میں ہم نے خود ہی پالے ہیں نا پوچھ پری زادوں سے یہ ہجر کیسے جھیلہ ہے یہ تن بدن تو چھلنی ہے اور روح پر بھی چھالے ہیں (ہو، ہو، ہو) کیسے جان پاؤ گے؟ عشق میں کیا گزری ہے؟ (ہے، ہے، ہے) کتنے زخم کھائے ہیں؟ کتنے درد پالے ہیں؟