اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا آمد دوست کی نوید آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں گرم تھی میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے؟ اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے؟ ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا