فردوس جھوم اٹھے فضا مسکرا اٹھے تم مسکرا اٹھو تو خدا مسکرا اٹھے ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو افسانۂ چمن کا عنوان ہی بدل دو پھولوں کا سر کچل دو کلیوں کا دل مسل دو آکاش کی جوانی بادل میں منہ چھپائے مہتاب ڈوب جائے تاروں کو نیند آئے زہرہ جبیں، پری رو تمثیلِ ماہ و انجم آنکھیں شراب آنگیں جذبات میں تلاطم ہلتے ہوئے لبوں پر ہنستا ہوا ترانہ اے دل نواز پیکر خاطر میں ہے زمانہ لب، ہائے، احمریں پر نکھری ہوئی ہے لالی یہ ہلکی ہلکی سرخی تصویر ہے شفق کی آوارہ، شوخ زلفیں رخسار چومتی ہیں رخسار چومتی ہیں بے خود ہیں، گھومتی ہیں ہو زیست کا سہارا تم موج، میں کنارہ لیکن سنو خدارا ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ظلمی، ایک بار مسکرا... ایک نوجواں مسافر فطرت کا لاابالی ایک عالمِ جنوں میں ایک سمت جا رہا تھا جیسے کہ اپنے دھن میں پربت پہ چڑھ رہا تھا زلفیں کہ منتشر تھیں چہرے سے مضمحل تھا نظریں کہ راہ پہ تھیں کتنا شکستہ دل تھا ماضی کی دھندلکوں میں ایک عکس پا رہا تھا گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا تھا ارماں تڑپ رہے تھے حسرت مچل رہی تھی بے تاب زندگانی کروٹ بدل رہی تھی گن گن تارے، ہائے، بے چارے گن گن تارے، ہائے، بے چارے چین نہ آئے جی گھبرائے دیکھ تو کیا ہے کون بسا ہے دیدۂ تر میں نیچی نظر میں شیشۂ دل میں آنکھ کے تل میں دل کو جلانا کھیل ہے، جاناں دل کو جلا کر، آگ لگا کر خود بھی جلو گے، ہاتھ ملو گے تم شمع فروزاں ہو خود بھی جلو، جلا دو لیکن ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو تم جانِ مدعا ہو ایک حسنِ دل ربا ہو اِتنا تو میں کہوں گا میری ہی اِس غزل کا رنگین قافیہ ہو ایک بات تم سے پوچھوں بولو، جواب دو گے؟ یہ حسن، یہ جوانی سرکار، کیا کرو گے؟ ہونٹوں کی مسکراہٹ بیچو، خرید لوں گا منظور ہو تو بولو انمول دام دوں گا لیکن ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو ایک بار مسکرا دو