راشد صاحب کی ایک نظم ہے، جو لوگ بھول چکے ہیں بھلا چکے ہیں "درویش" زمستاں کی اس شام نیچے خیاباں میں میرے دریچے کے پائیں جہاں تیرگی منجمد ہے یہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز کیا کہہ رہی ہے؟ خداوند! کیا آج کی رات بھی تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں نہیں ہٹ سکیں گی؟ خیاباں تو ہے دور تک گہری ظلمت کا پاتال اور میں اس میں غوطہ زنی کر رہا ہوں صداؤں کے معنی کی سینہ کشائی کی خاطر چلا ہوں یہ درویش جس کے اب و جد وہ صحرائے دیروز کی ریت پر تھک کے مر جانے والے اسی کی طرح تھے تہی دست اور خاک تیرہ میں غلطاں جو تسلیم کو بے نیازی بنا کر ہمیشہ کی محرومیوں ہی کو اپنے لئے بال و پر جانتے تھے جنہیں تھی فروغ گدائی کی خاطر جلال شہی کی بقا بھی گوارا جو لاشوں میں چلتے تھے کہتے تھے لاشوں سے "سوتے رہو صبح فردا کہیں بھی نہیں ہے" وہ جن کے لئے حریت ہی نہایت یہی تھی کہ شاہوں کا اظہار شاہنشہی حد سے بڑھنے نہ پائے بھلا حد کی کس کو خبر ہے؟ مگر آج کا یہ گدا، یہ ہمیشہ کا محروم بھی ان اب و جد کے مانند گو وقت کے شاطروں کی سیاست کا مارا ہوا ہے ستم یہ کہ اس کے لئے آج ملائے رومی کے مجذوب شیراز کے زنگ آلودہ اوہام بھی دستگیری کو حاضر نہیں ہیں خداوند! کیا آج کی رات بھی تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں نہیں ہٹ سکیں گی؟ تجھے اے زمانے کے روندے ہوئے آج یہ بات کہنے کی حاجت ہی کیوں ہو؟ تو خوش ہو کہ تیرے لئے کھل گئیں ہیں ہزاروں زبانیں جو تیری زباں بن کہ شاہوں کے خوابیدہ محلوں کے چاروں طرف شعلے بن کر لپٹتی چلی جا رہیں ہیں سیاست نے سوچا ہے تیری زباں بند کر دے سیاست کو یہ کیوں خبر ہو کہ لب بند ہوں گے تو کھل جائیں گے دست و بازو وہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز یک لخت خاموش کیوں ہو گئی ہے؟ نوآموز مشرق کے نوخیز آئین کے تازیانوں سکوت گدا سے گدائی تو ساکت نہ ہوگی